خوش معرکہ زیبا کی تدوین

  • ڈاکٹر محمد قاسم

Abstract

Khush-Marika-e-Zeba is most prominent and significant work in the tradition of Urdu Tazkira Nigari. It was written by Saadat Khan Nasir in the forth quarter of nineteen centaury. Before Khush Marika-e-Zeba there are only four tazkiras in Urdu language. It is a great encyclopedia of the famous Urdu writers and poets and their literary work. Some scholars like Prof. Atta Kakovi and Dr. Shamim had edited and published this tazkira in 1968 and 1971 respectively.

This article is about a unique and scholarly edition of Khush-Marika-e-Zeba edited by Mushfiq Khawja. It was published by Majlis-e-Taraqi-e-Adab in 1970. This edition is the most reliable edition and contains a comprehensive preface, annotation and notes.

References

۱۔ خوش معرکہ زیبا کے صفحات سے معلوم ہوتاہے کہ سعادت خان ناصر کی اکثر شعرا سے ملاقات رہتی تھی۔ شیخ ناسخ سے بھی تذکرہ نگار نے دوایک ملاقاتوں کااحوال بیان کیاہے۔ایک ملاقات کا مذکورلالہ سیوارام ،شائق کے ذیل میں ہے جس میں ناسخ کی امرد پرستی کاتذکرہ واشگاف انداز میں ملتاہے۔ میرزائی اور ناسخ کے تعلق کی نوعیت اور کیفیت یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔
“شیخ صاحب مذکورہ محلہ ٹکسال لکھنو میں رہتے تھے اور میر زائی صاحب کہ شیخ صاحب کے مکان کے پاس رہتے تھے، شیخ صاحب ان سے یعنی میرزائی صاحب سے محبت دلی رکھتے تھے اور میرزائی صاحب اس زمانے میں بہت کم سن اور جمیل وشکیل اور صاحب حسن و جمال تھے،بلکہ شیخ ٰ صاحب کو لوگ ان سے بدنام کرتے تھے۔ایک روز کی نقل ہے کہ میرزائی صاحب نے اپنے ملازم کے ہاتھ شیخ صاحب سے کچھ روپیہ قرض منگابھیجا۔ راقم تذکرہ ہذا وہاں موجودتھا۔ شیخ صاحب نے حسب الطلب بھیج دیا اور ایک پرچے پر یہ شعر فارسی کامیرزائی صاحب کو لکھ بھیجا۔ وہ شعر یہ ہے :
چہ پروا از زر و دینار داری
کہ دارالضرب در شلوار داری

(خوش معرکہ زیبا،جلددوم،ص۵۷)
۲۔ امانت لکھنوی اور اندرسبھا کے بیان میں ناصر نے کافی اہم باتیں کی ہیں ۔اندرسبھا اور سحرالبیان کے حوالے سے معاشرت میں جوبگاڑ پیداہوا،
وہ چشم کشابھی ہے اور افسوس ناک بھی۔
“میاں امانت نے ایک رہس کی طرح مثنوی اندر سبھا تصنیف کی تھی۔ اس میں بجائے امانت تخلص استاد اپنا قررا دیاتھا اور اس مثنوی میں غزلیں اورہولی وٹھمری اور چھند زبان بھاگامیں کہے تھے۔ چنانچہ جس کو سن کے پنڈت کشمیری اور بہاری کہار اور میر حافظ نے چند طفلان حسین چنے اور امر دان ماہ جبیں، خوب صورت جمع کرکے او ران لڑکوں کو مثنوی یادکراکے اور تعلیم راگ اور ناچ دلوا کے ایک رہس کھڑا کیاتھا اور وہ پندرہ روپیہ روزینہ پر مجرے بھی جاتے تھے۔چنانچہ خلائق نے یہ جلسہ جدید دیکھ کر بہت پسند کیا اور ہزارہا لوگ بازاری جمع ہونے لگے۔ ایک روز مولف تذکرہ ہذابھی اس جلسہ رہس اندر سبھا میں گیا۔ دیکھامیں نے کہ ہزارہا لوگ ان امر دان حسین پر مفتون وشیفتہ ہیں اور میاں امانت مسندپر بیٹھے ہیں اور ایک لونڈا حسین مہ پارہ آگے گاتاہے۔ میں یہ دیکھ کر چندے توقف کے بعد اپنے مکان پر چلاآیا۔ غرض کہ یہ اندر سبھا خوب چمکی اور مشہور خلائق ہوئی۔ جیسے کہ میر حسن کی مثنوی سے ہزارہا عورات فاحشہ ہوگئیں، ویسے ہی اس مثنوی اندرسبھا سے ہزارہا مردلوطی ومغلم ہوگئے اور اغلام نے خوب رواج پایا۔”
(خوش معرکہ زیبا،جلددوم،ص۲۳۱)
۳۔ مثنوی سحرالبیان کے سبب تالیف سے بھی ناصر نے پردہ اٹھایاہے اور بتایاہے کہ میر حسن نے یہ مثنوی اپنی محبوبہ کی خاطر تحریر کی۔
“ بہ سبب تقاضائے جوانی محل کی ایک عورت سے محبت اور موانست ہوئی،چونکہ طبیعت موزوں تھی، بپاس خاطر معشوقہ مثنوی بے نظیرتصنیف کی۔ یہ تلازم کہ مثنوی میں ہے،شنیدہ نہیں دیدہ ہے۔”
خوش معرکہ زیبا،جلداول،ص۴۰)
۴۔ میرتقی میر کے ضمن میں ناصر نے کئی ایک واقعات کاذکر کیاہے۔ میر کی شخصیت اور مزاج شناسی کے ذیل میں یہ بہت کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ۔ایک واقعہ حسب ذیل ہے:
“عمادالملک نوا ب غازی الدین خان لب دریا بیٹھے ہوئے تھے اور مرغان آبی بط و سرخاب دریامیں واسطے سیر و تماشا کے چھوٹے ہوئے تھے۔ اتفاقاً میر صاحب بھی ادھر سے آنکلے، نواب نے چند قصیدے اپنے میر صاحب کے روبرو پڑھے اور داد طلب ہوئے۔ میر صاحب نے فرمایا میری تعریف کی کیا احتیاج ہے، ہر بط کوصاحب کے اشعار پر حالت وجد اور سماع ہے۔”
(خوش معرکہ زیبا،جلددوم،ص۱۴۲)
۵۔ ناسخ کی اردو نثر کا واحد نمونہ وہ جواب ہے جو ناسخ نے مصحفی کے شاگرد لالہ موجی رام موجی کی طرف سے تحریر کیا۔ اس میں مرزا قتیل کے موجی کے شعروں پر اٹھائے گئے اعتراضات کاجواب ودلائل واستناد کے ساتھ دیا گیاہے۔ یہ جواب بھی برسرمشاعرہ پڑھاگیا۔ ناسخ کایہ نثر پارہ نقد شعر کے حوالے سے لاجواب ہے اور محاسن وعیوب شعری کے حوالے سے ناسخ کی استادی کابین ثبوت بھی۔علاوہ ازیں اس عہد کاتنقیدی مزاج بھی اس نثر پارے میں دھڑکتا ہوامحسوس ہوتاہے۔
“افصح الفصحا مرزاقتیل صاحب، آپ نے جو مجھ ہیچمدان کی غزل پر یہ اعتراض کیے ہیں کہ گلاب بمعنی ’گل‘ گلاب غیر مستعمل اور ارود میں نہیں آیا، ایساکلام لایعنی آپ سا شاعر فخر زمانہ کہے بساعجب ہے ۔ نہیں جانتے ہو کہ محاورہ اہل ہند میں گلابی جاڑا اسے کہتے ہیں کہ موسم گلاب میں ہو اور گلابی رنگ کہ منسو بہ گلاب ہو،قطع نظر میر(محمد) تقی کہ زبان ریختہ میں سہیم و عدیل نہیں رکھتے تھے، فرماتے ہیں:
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

مرزامظہر جان جاناں (فرماتے ہیں):
عالم ہے یہ پسینے کا اس مست خواب پر
پڑتی ہے اوس جیسے سحر کو گلاب پر

میاں مصحفی:
سرخ ہے مے سے وہ چشم نیم خواب نرگسی
یا یہ باغ حسن میں پھولا گلاب نرگسی

دیگر:

دلی بھی طرفہ جا ہے کہ ہر اک گلی کے بیچ
بکتے ہیں کوڑی کوڑی کٹورے گلاب کے

اور آپ نے جو فرمایا ہے کہ چشمہ بیرون آب ہے، فی الحقیقت سعدی نے گلستان میں غلطی فرمائی ہے:
سرچشمہ شاید گرفتن بہ میل
چو پر شد نا شاید گذشتن بہ پیل

اور آپ نے جو کہاکہ سراب محض ریگستان ہے اور موج سے کیانسبت ،ناصر علی کہتاہے:
نمی دانم کدامی شہسوار آمد دریں وادی
کہ از صد جا گریباں چاک شد موج سرابش را

جواب آپ کے ہر اعتراض کایہ ہے اور غزل ثانی تصنیف ضمیر کے جوآپ بے عیب کہتے ہیں ، ایک شعر میں دو اعتراض ہیں:
وطن میں بھی نہیں سر کشوں کو چین ذرا
کہ کم نہ ماہی کا ہو اضطراب در تہ آب

صاحب میرے، اضطراب ماہی در تہ آب کوئی شاعر نہیں بولا، کس واسطے کہ مچھلی کو سائے پانی کے آرام نہیں اور اگر اضطراب بہ منی رفتار ہے ،اضطراب اور رفتار میں بڑا فرق ہے ۔سرگشتہ مفرد، جمع اس کی جس وقت کیجیے گا ،بجائے ہائے ہوز کے کاف فارسی اور الف نون جمع کاآئے گااور ’سرگشتگان‘ ہوگا۔ ’سرگشتگوں‘ کی ایجادکہاں سے ہے ۔زبان اردو کے جاننے والے فی زمانہ میاں مصحفی اور انشااللہ خاں ہیں، آپ عبث دخل در معقولات دیتے ہیں، فارسی آپ کی البتہ مشہور،اس کو اصفہانی جانیں، زیادہ والسلام والاکرام۔”
(خوش معرکہ زیبا،جلددوم،ص۵۱۵تا۵۱۷)
۶۔ فرمان فتح پوری ڈاکٹر ، اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری ،مجلس ترقی ادب،لاہور،۱۹۷۲ء ،ص۳۳۸
۷۔ مشفق خواجہ مرتبہ ،مقدمہ،خوش معرکہ زیبا ،مجلس ترقی ادب،لاہور،۱۹۷۰ء،ص۵۰
۸۔ مشفق خواجہ ،مقالہ ’’سعادت خان ناصر اور اس کاتذکرہ خوش معرکہ زیبا ، مشمولہ تحقیق نامہ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ،لاہور،۱۹۹۱ء،ص۱۹۶
۹۔ گیان چند جین ڈاکٹر ،اردو کی نثری داستانیں ،لکھنو ۱۹۸۷ء،ص۶۰۸
۱۰۔ گیان چند جین ڈاکٹر ،اردو کی نثری داستانیں ، کراچی،۱۹۶۹ء،ص۳۹۷۔۳۹۸
۱۱۔ مقالہ، اگر وگل ‘مشمولہ ہماری داستانیں، لاہور،۱۹۶۴ء،ص۴۳۸
۱۲۔ خلیل الرحمان داودی مرتبہ ،مقدمہ قصہ اگرگل ،مجلس ترقی ادب،لاہور،۱۹۶۷ء،ص۶۔
۱۳۔ ایضاً ص۶۔
۱۴۔ ایضاً،ص۲۵
۱۵۔ نثار احمد فارقی ،اردو میں تحقیق کی روایت اور قاضی عبدالودود ،غالب نامہ،جنوری ۱۹۸۷ء،ص۱۱۸۔۱۱۹
۱۶۔ معین الدین عقیل، پاکستان میں اردو تحقیق ،مشمولہ اردو میں اصول تحقیق ،جلددوم مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش،جون ۱۹۸۸ء،ص۳۹۳
۱۷۔ ایضاً،ص۲۹۴
Published
2019-11-19