فرہنگِ ہوبسن جوبسن: انیسویں صدی کی ایک اشتقاقی فرہنگ اور اس کے مصنفین
Abstract
Hobson-Jobsonis a glossary of Anglo-Indian words and terms which is compiled in the late nineteenth century. It was written by Henry Yule and Arthur Coke Burnell and first published in 1886. Burnell died before the work was finished, and most of it was completed by Yule, who, however, fully acknowledged Burnell's contributions. It is an etymological glossary of words from Indian languages which came into use during the British rule of India. It documents the words and phrases that entered and absorbed in European languages from Indian languages. Hobson-Jobson holds over 2,456 entries. It included illustrative quotations that were drawn from a wide range of travel texts, histories, memoirs, novels and others. It does not only record the vocabulary but also the culture of the British India. It encompasses aspects of the history, trade, peoples, and geography. This glossary has never been superseded. There is not any considerable work regarding this glossary and its authors in Urdu. This article gives its brief introduction, elaborates its unique name, and discusses the issue of publishing year and gives details about the authors.
References
۲۔ رضیہ نور محمد، اردو زبان اور ادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ از ۱۴۹۸ء تا ۱۹۴۷ء (لاہور: مکتبہ خیابان ، ۱۹۸۵ء)، ص۲۰۶۔
۳۔ عطش درانی، اردو زبان اور یورپی اہلِ قلم (لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۷ء)، ص۷۴
۴۔ صفدر رشید، مغرب کے اردو لغت نگار (لاہور: مجلس ترقی ادب، ۲۰۱۵ء)، ص۶۸۔
۵ ۔ آغا افتخار حسین نے اس کا سنہ اشاعت۱۸۶۶ء بتایاہے۔ ان کے مضمون سے استفادہ کرتے ہوئے دیگر محققین رضیہ نور محمد، عطش درانی اور صفدر رشید نے بھی ۱۸۶۶ء کو ہی سنہ اشاعت لکھا ہے۔حسین، ص۵۸۔ محمد،ص۲۰۶۔ ر شید، ص ۱۷۲۔درانی، ص۱۳۲۔
۶۔ ہنری یول (Henry Yule) ، اے ۔سی۔برنل (A.C.Burnell) ، Hobson-Jobson: A Glossary of Colloquial Anglo Indian words and phrases of kindered terms, Etymological, Historical, Geographical and Discursiv(لندن: جان مرے پبلشرز، ۱۹۰۳ء)۔
۷۔ ایضاً، (لندن / نیویارک: رتلج، ۱۹۸۶ء)۔
۸۔ ایضاً (دہلی: ۲۰۰۷ء)۔
۹۔ حسین، ص۵۵۔
۱۰۔ انتھنی برجس(Anthony Burgess) ،"Foreword"،Hobson Jobson: A Glossary of Colloquial Anglo Indian words and phrases of kindered terms, Etymological, Historical, Geographical and Discursive(لندن: رتلج، ۱۹۸۶ء)، ص۷۔
۱۱۔ ولیم کرک (اکتوبر ۱۹۲۷ء ۔ اگست ۱۸۴۸ء):ولیم کرک نے ٹپرارے (Tipperary) کے گرائمر سکول سے اور ڈبلن (Dublin) کے ٹرنٹی کالج سے تعلیم حاصل کی۔ سول سروس کا امتحان پاس کر کے ۱۸۷۱ء میں ہندوستان آئے۔ شمالی مغربی صوبے اور اودھ میں مجسٹریٹ اور کلکٹر کے عہدے پر فائض رہے۔ ولیم کرک نے ہوبسن جوبسن کی تدوین کی اور اس کا اضافہ شدہ ایڈیشن ۱۹۰۳ء میں لند ن سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ولیم کرک درج ذیل کتب کے مصنف بھی ہیں۔
o An Introduction to the Popular Religions and Folklore of Northern India, 1894.
o The Tribes and Castes of the North-Western provinces, 1896.
o The North-Western Provinces of India, 1897.
o Things Indian, 1906.
o Natives of Northern India, 1907.
o Islam in India 1912.
سی۔ای۔بک لینڈ(C.E.Buckland) ،Dictionary of Indian Biography (لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۵ء)، ص۷۱۔
۱۲۔ کیٹ ٹیلچر ( Kate Teltscher)روہیمپٹن یونی ورسٹی لندن میں ادب و ثقافت، تحقیقی مر کز برائےادب و ثقافت کی شریک ڈائریکٹرہیں۔یونی ورسٹی میں تدریس سے بھی وابستہ ہے۔کیٹ بر طانیہ اور ایشیا کے مابین ثقافتی اور سائنسی روابط کی تاریخ جیسے مو ضوع پر تحقیق کر چکی ہیں۔ہوبسن جوبسن کی تدوین کے علاوہ بھی ان کی دو کتابیں شائع ہو چکی ہے۔
o India Inscribed : European and British Writing on India 1600-1800
o The High Road to China : George Bogle, the Panchen Lama, and the First British Expedition to Tibet
https://www.researchgate.net/profile/Kate_Teltscher, Date:5 september,2019.
۱۳۔ ہنری یول (Henry Yule) ، اے ۔سی۔برنل (A.C.Burnell) ، Hobson-Jobson:The Defenative Glossary of British India(لندن اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۲۰۰۳ء)۔
۱۴۔ حسین، ص۷۰۔
۱۵۔ https://en.wikipedia.org/wiki/Henry_Yule, Date: 3 september 2019.
۱۶۔ انگریز مورخین نے بنگال کے نواب سراج الدولہ سے ایک واقعہ منسوب کرتے ہیں۔جس کو سانحہ بلیک ہول کا عنوان دیا گیاہے۔ سراج الدولہ نے کلکتہ کی فتح کے وقت تقریبا ۱۵۰ انگریزوں کو ایک اٹھارہ سے بیس فٹ کی کال کوٹھڑی میں قید کر دیا۔ دم گھٹنے سے بیشتر مارے گئے۔ صرف چند ہی بچ سکے۔اس واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے انگریز مورخ سراج الدولہ کو ایک ظالم اور بے رحم حکمران قرار دیتے ہیں۔برصغیر کے محققین نے اس واقعہ کے حقیقی ہونے پر اعتراض کیا ہے۔ دلیل دی ہے کہ چند فٹ کے کمرے میں اتنے افراد کا سما جانا ممکن نہیں ہے۔
https://www.mirrat.com/article/9/615Date: 25 july 2019.
۱۷۔ جان ۔ایف۔ریڈک(John.F.Riddick)،Who was who in British India (لندن: گرین وڈ پریس، ۱۹۹۸ء)، ص۴۰۳ ۔
۱۸۔ بک لینڈ،ص۲۴۵۔
۱۹۔ کیٹ ٹیلچر(Kate Teltscher) ،"Introduction"، Hobson-Jobson:The Defenative Glossary of British India)لندن اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۲۰۰۳ء)،ص۱۳۔
۲۰۔ ریڈک،ص۵۷۔
۲۱۔ خالداحمد ۔ لفظوں کی کہانی لفظوں کی زبانی۔ مترجم: شیراز راج (لاہور: مشعل بکس، ۲۰۱۰ء)۔
۲۲۔ بادشاہ منیر بخاری، "کرنل ہنری یول کی لسانی خدمات"مشمولہخیابان (پشاور: خزاں ۲۰۱۴ء):ص۱۶۵۔
۲۳۔ سلیم اختر، اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ (لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء)، ص۲۰۱۔
۲۴۔ حسین، ص۵۸۔
۲۵۔ حسین، ص۵۸۔
۲۶۔ آغا افتخار، ر ضیہ نور محمد،بادشاہ منیر بخاری اور صفدر رشید صاحب نے فرہنگ کے تعدادو صفحات ۸۷۰ بتائے ہیں۔ جب کہ عطش درانی نے ۸۷ صفحات لکھا ہے۔ ممکن ہے کہ آغا افتخار حسین صاحب اور دیگر محققین نے فرہنگ کا پہلا نسخہ دیکھا ہو اور اس کے صفحات کی تعداد صفحات ۸۷۰ ہی ہو مگر یہ نسخہ راقمہ کو دستیاب نہیں ہو سکا۔ البتہ عطش درانی کے بتائے گئے ۸۷ صفحات بعید از قیاس معلوم ہوتے ہیں۔ اس پر کتابت کی غلطی کا گمان ہو تا ہے۔البتہ سبھی محققین نے اندراجات کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتائی ہے جو دستیاب شدہ ایڈیشنوں میں موجوداصل تعداد سے کم ہے اصل تعداد۲۴۵۶ہے۔ حسین، ص۵۸؛ محمد،ص۲۰۷؛بخاری ،ص۱۶۸؛ ر شید، ص ۱۷۲؛درانی، ص۱۳۲۔
All Copy Rights ® Reserved to Shah Abdul Latif University, Khairpur